تمام ادیان و شرائع کی کامل تری شکل :
دین اسلام اور شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم
شیخ / صالح بن محمد آل طالب : حفظہ اللہ
1/1/ 1425 ھ 27 / 2 / 2004 ء
حمد و ثناء کے بعد
اللہ کا تقوی اختیار کرو ، اس قدر جتنا کہ اس کا حق ہے اور اسلام کے مضبوط آہنی ہتھکنڈے کو تھامے رکھو اور یاد رکھو کہ یہ دنیا فانی ہے اور آخرت ہی ھمیشہ کا گھر ہے ۔ ارشاد الہی ہے :
" جس نے برائی کی اسے بدلہ بھی ویسا ہی ملے گا اور جو نیک کام کرے گا ، مرد ھو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ھو گا تو ایسے لوگ جنت میں داخل ھونگے وہاں انھیں بے شمار رزق ملے گا " ۔
( المؤمن : 40)
مقصد تخلیق انسان اور یہ کائنات :
اے مسلمانو ! اور اے بنی بشر ! زمانہ ماضی و عہد قدیم میں اور طویل زمانوں سے قبل جن کی طوالت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اس کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے صرف اللہ ہی تھا ۔ اس کے ساتھ دوسرا کوئی نیں تھا ۔ وہ بلا ابتداء اول ہے اور وہ بلاانتہاء آخر بھی ہے وہ ہر چیز پر ظاھر و غالب ہے اس سے اوپر کوئی چیز نہیں اور وہی باطن بھی ہے اور اس سے ماوراء کوئی چیز نہیں وہ اپنی تعریفوں کے ساتھ پاک ہے ۔ اس نے کسی وقت یہ فصیلہ فرمایا کہ مخلوقات کو بناۓ ، جانوں کو تخلیق فرمائے ، تب اس نے آسمانوں ، زمین اور ان کے مابین کی تمام چیزوں کو بنایا ۔ اس نے فرشتوں کو بنایا جو اس کے احکام و اوامر میں سے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس چیز و کام کا انھیں حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔ اللہ نے جنوں کو پیدا فرمایا اور انھیں انسانوں کی نظروں سے اوجھل رکھا اور پھر اس نے اپنے مکرم ہاتھوں سے ھمارے بابا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی اور ان سے نسل انسانی کا اجراء کیا ۔ اور جن و انس کا مقصد تخلیق بیان فرماتے ہوئے فرمایا :
" میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ، مجھے ان سے رزق نہیں چاہیۓ اور نہ ہی میں یہ چاہتا ھوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۔ بیشک اللہ خود بہت ہی زیادہ رزق دینے والا ، بہت ہی قوت کا مالک ( زور آور ) اور مضبوط ہے "۔ ( الزاریات : 56 ، 58)
اللہ سبحانہ و تعالی غنی و بے نیاز ہے ۔
امت واحد اور اختلافات :
حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان ہیں اور وہی سب سے پہلے نبی بھی ہیں ۔ اللہ نے انھیں صرف اللہ غالب و لائق ستائش کے لئے خالص عبادت اور اس کے وحدانیت و یکتائی کا حکم فرمایا : ان کے لئے شریعت مقرر فرمائی اور ان کی اولاد میں یکے بعد دیگرے انبیاء کرام کا سلسلہ شروع فرمایا تا کہ وہ انبیاء مخلوق کی قیادت و راہنمائی کریں ۔ انھیں حق کی راہ دکھلائیں جسے لوگوں کے لئے خود اللہ تعالی نے پسند فرمایا ہے ، شروع میں تمام لوگ اسی اصل پر قائم تھے سب کے سب ہی اسلام و توحید پر تھے ۔ سارے کے سارے ہی راہ ھدایت پر تھے کیونکہ وہ فطرت سلیمہ ( اسلام ) پر رہتےہوئے اپنے اپنے نبی کی اتباع وپیروی کیا کرتے تھے ۔ وہ سب ایک ہی امت تھے ، ایک دین کو مانتے تھے ، صرف ایک ہی معبودحقیقی کی عبادت کیا کرتے تھے ،یہاں تک کہ شیطان نے انھیں بہکا دیا اور وہ سیدھے دین سے پھر گئے اور صراط مستقیم سے منحرف ھو گئے اور یہ اللہ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت سے پہلے ہی رونما ھو گیا ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
" حضرت آدم و نوح علیھما السلام کے مابین دس قرنوں ( نسلوں یا ھزار سال ) کا عھد و زمانہ ہے ۔
اس دوران کے تمام لوگ مسلمان تھے اور پھر ان کے مابین دینی اختلاف واقع ھو گیا " ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
" لوگ ایک ہی امت تھے اور پھر وہ باھم اختلاف میں پڑ گئے " ۔ ( یونس : 19)
سبب اختلافات شرک :
اس اختلاف کے وقوعہ کا سبب ان کا اپنے انبیاء کی اتباع و پیروی کو ترک کرنا اور آسمان تک پہنچی ھوئی رسی سے تمسک و تعلق قائم نہ رکھنا تھا ۔ انھوں نے اللہ کے سوا اس کے شریک بنا لئے اور انھیں معبود ٹھہرا لیا ۔ قرآن کریم میں ان کے چند معبودوں کا ذکر آیا ہے جو یہ ہیں :
" ود " سواع " یغوث " یعوق " اور نسر ۔ ۔ ۔ " ( نوح : 23)
یہ دراصل ان کی قوم کے نیک و صالح افراد کے نام ہیں جن کے مر جانے کے بعد ان کی قوم نے ان کی صورتیں ( بت ) بنا کر عبادت میں ھمت و نشاط حاصل کرنے کے لئے ان کا ذکر شروع کر دیا ۔ پھر ان کے بعد میں آنے والے لوگوں نے ان کی تعظیم شروع کر دی یہاں تک کہ ان کی عبادت شروع ھو گئی جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ ثابت ہے ۔ تب اللہ تعالی نے انکی طرف اپنے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جنکے بارے میں ارشاد الہی ہے :
" وہ پچاس کم ایک ھزار سال ان کے مابین رہے " ۔ ( العنکبوت : 14) ۔
وہ انھیں توحید کی دعوت دیتے رہے اور ایک اللہ کی خالص عبادت کی طرف بلاتے رہے مگر حسب ارشاد الہی ہے :
" ان کے ساتھ بہت ہی تھوڑے لوگ ایمان لاۓ " ۔ ( ھود : 40)
انھیں اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کو اللہ تعالی نے نجات دی اور باقی تمام لوگوں کو طوفان میں غرق کر دیا ، اور اس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے رسول مسلسل بھیجے لیکن : " جب کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا ، انھوں نے اسے جھٹلایا " ۔ ( المؤمنون : 44) ۔
انہی رسولوں میں سے حضرت ھود و صالح علیھا السلام بھی ہیں ۔
انتشار شرک اور ضرب خلیل :
اس کے بعد بتوں کے شرک کے علاوہ دنیا ستاروں کی عبادت کے شرک سے بھر گئی ۔ شرک کی یہ قسم روۓ زمین پر عام ھو گئی حتی کہ روۓ زمین پر حضرت ابراھیم خلیل علیہ السلام اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ علیھا السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی مومن و موحد نہ تھا تب اللہ تعالی نے موحدین کے امام حضرت ابراھیم خلیل علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جو کہ ابو الانبیاء ، ملت خالصہ و موحدہ کی اساس و بنیاد اور باقی رہنے والے کلمہ تھے ، ان کے ہاتھوں اللہ تعالی نے ان شرور و شرک کا خاتمہ کروایا ، بتوں کو تڑوایا اور طاغی و سرکش لوگوں کو خود اللہ تعالی نے ھلاک کیا اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کو نجات عطا فرمائی اور پھر انھیں دو انتہائی بابرکت بیٹے اور بڑی تکریم والے نبی حضرت اسماعیل و اسحاق علیھما السلام عطا فرمائے ، حضرت اسماعیل علیہ السلام بنی جرھم ، عمالقہ حجاز اور یمن والوں کے لئے تھے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کو اللہ تعالی نے شام اور اس کے مضافات و متعلقات کی طرف مبعوث فرمایا اور پھر اللہ تعالی نے حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے حضرت یعقوب علیہ السلام پیدا فرما کر نبی بنایا اور وہی اسرائیل ہیں جن کی نسل سے انبیاء و ملوک کا سلسلہ شروع ھوا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام آۓ ، پھر حضرت موسی و ہارون ، یونس ، داود ، سلیمان ، یحی ، زکریا اور عیسی علیھم السلام آۓ ، حضرت موسی علیہ السلام رسالت و کتاب کے ساتھ مبعوث ہوئے ۔ ان کی کتاب تورات اور ان کی شریعت یہودیت تھی ، اور پھر حضرت عیسی علیہ السلام آۓ جو کہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے آخری نبی تھے ۔ آپ کی کتاب انجیل اور شریعت نصرانیت تھی ۔
بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارتیں :
تمام انبیاء بشر تھے ، آتے گئے اور فوت ھوتے گئے اور ان کے بعد آنے والے اہل علم بھی بھولتے گئے ، خطائیں کرتے رہے بلکہ ان میں سے کئی لوگ تحریف اور تغیر و تبدل کے مرتکب بھی ہوئے اور اللہ نے ان تمام انبیاء کی رسالتوں کی بقاء کا ذمہ نہ لیا اور اپنی کسی حکمت کے تحت ہی ان کی کتابوں کے تحفظ کی ذمہ داری بھی نہ اٹھائی ۔ اور اللہ تعالی نے تمام انبیاء کرام کی طرف یہ وحی کی کہ اپنی اپنی قوم کو نبئ کریم ، رسول خاتم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کی بشارت دیتے رہیں ، جن کی رسالت و شریعت دائمی (قیامت تک کے لئے ) ھوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کتاب بھی ہر طرح کی تحریف و تبدیل سے محفوظ رہے گی وہ نبی اس امانت کا بار اٹھائیں گے جسے آپ سے پہلے انبیاء و رسل نے اٹھایا ۔ جنھوں نے اس نبی کی رکاب کو تھامے رکھا اور ان کے نقش قدم پر چلتے گئے وہ نجات پا جائيں گے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب و انکار کیا اس نے گویا پہلے تمام انبیاء و رسل کی بھی تکذیب کی اور انکار کر گئے ۔ اور وہ اللہ کے رسول قریشی و ھاشمی حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالی نے سابقہ تمام شرائع سماویہ سے اکمل ترین شریعت عطا فرمائی جو کہ تمام انسانوں کے لئے عام و شامل ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ملت ابراھیمی ( توحید و حنیفیت ) کی طرف دعوت دیا کرتے تھے ، اور اپنے سے پہلے انبیاء کے قبل از تحریف دین صحیح کی طرف بلاتے تھے اور وہ دین ہی صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنا اور تمام عبادات کو ضرور اللہ تعالی ہی کے لئے خالص کرنا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے زمین کو عبادت اوثان اور شرک کی تمام آلائیشوں سے پاک کر دیا جبکہ آپ سے قبل روۓ زمین کے اہل کتاب یہود و نصاری کی غالبیت و اکثریت شرک میں لت پت ھو چکی تھی ۔
نوید و بشارت :
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عیسی علیہ السلام کی نوید اور پہلے انبیاء کی بشارت تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر جمیل اٹھارہ بشارتوں میں آیا ہے ان میں سے گیارہ بشارتیں تو عھد قدیم ( تورات ) میں ہیں اور بقیہ سات بشارتیں عھد جدید ( انجیل ) میں آئی ہیں ۔ اہل کتاب کے علماء سوء نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں آمدہ بشارتوں کو اپنی کتابوں میں سے حذف کر دیا ہے یا ان کی تحریف و تاویل کر دی ہے اور ان کی تمام تر تحریفوں اور تاویلوں کے باوجود بھی وہ صرف اور صرف ھمارے ہی نبی امت مسلمہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر صادق و فٹ آتی ہیں ۔ اللہ تعالی نے بعض یہودی احبار و علماء اور نصرانی رہبان و اہل علم کو راہ حق کی ھدایت دی ۔ انھوں نے حق کی تلاش میں جد و جہد کی اور وہ حقیقت کو پا گئے ۔
تمام انبیاء کا مشترکہ دین و دعوت :
مسلمانو ! حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء و المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک تمام انبیاء و رسل کی سیرت پر نظر ڈالنے والا شخص بآسانی اس حقیقت کو پا لیتا ہے کہ تمام انبیاء و رسل علیھم السلام کا دین ایک اور ان کا راستہ و صراط مستقیم بھی ایک ہی تھا ۔
ارشاد الہی ہے :
" بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے " ( آل عمران : 19)
تمام انبیاء دین جامع کے ساتھ مبعوث کۓ گئے تھے اور وہ دین جامع یہ ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جاۓ اور لوگوں کو اس راہ کیطرف لگایا جاۓ جو انھيں اسی تک پہنچا دے ، لوگوں کو مرنے کے بعد دوبارہ اٹھاۓ جانے ، حساب و کتاب ھونے اور جزاء و سزا کے بارے میں صحیح صحیح معلومات مہیا کی جائيں ۔ انھیں حیات بعد الممات کا تعارف کروایا جاۓ ۔ اور یہ وہ عظیم اکائی ہے جو تمام رسولوں اور ان کی رسالتوں کے مابین مشترک تھی ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے بھی یہی مقصود ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :
" ھم انبیاء کی جماعت کے افراد ایک باپ کی اولاد سے بھائی بھائی ہیں ، ان کی مائیں الگ الگ ہیں لیکن دین سب کا ایک ہی ہے " ۔ ( متفق علیہ )
اصل عام یہ ہے کہ تمام انبیاء کا دین ایک ہی ہے البتہ ان کی شریعتیں الگ الگ ہیں اور یہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہیں ۔ کوئی بھی نبی ایسا ہرگز نہیں گزرا جس نے توحید کی دعوت نہ دی ھو ۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے مخاطب ھو کر فرمایا ہے :
" ھم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا ہے اسے ہی یہ وحی بھی کی ہے کہ میرے سوا کوئی
لائق عبادت نہیں لھذا صرف میری ہی عبادت کرو "۔ ( الانبیاء : 25)
اور سورﺓ النحل میں ارشاد فرمایا ہے :
" ھم نے ہر امت و قوم میں ایک رسول بھیجا ( جس کے ذریعے انھیں حکم دیا ) کہ تم سب اللہ ہی کی عبادت کرو اور طاغوت ( اللہ کے سوا پوجی جانے والی چیزوں ) سے اجتناب کرو " ۔ ( النحل 36) ۔
اللہ نے کسی بھی نبی کے لئے یہ ہرگز روا نہیں کیا کہ وہ کبھی بھی کسی غیر اللہ کی عبادت کرے بلکہ اللہ نے تو خود انبیاء کو الہ و معبود بنا لینے کو بھی کفر قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد گرامی ہے :
" کسی بشر کو یہ لائق نہیں کہ جب اللہ اسے کتاب و حکمت اور نبوت سے سرفراز کر دے تو پھر وہ لوگوں سے کہنے لگے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ( عبادت کرنے والے ) بن جاؤ بلکہ ( اس کو یہ کہنا سزاوار ہے کہ ) تم ربانی ( رب والے ) ھو جاؤ کیونکہ تم کتاب ( الہی ) پڑھتے پڑھاتے رہتے ھو ، اور اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیۓ کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لو ، بھلا جب تم مسلمان ھو چکے ھو تو اسے کہاں زیبا ہے کہ وہ تمھیں کافر ھونے کو کہے " ۔ ( آل عمران : 79 ، 80)
جامع شریعت و دین :
اللہ نے ھمارے لئے بھی وہی چیزیں بطور شریعت مقرر فرمائی ہیں جو پہلی امتوں دور سابقہ رسولوں کے لئے شریعت بنائی تھیں اور وہ شرائع اسلامیہ ہی ہیں جو کہ اللہ کا دین ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے :
" اس نے تمھارے لئے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا جسے اختیار کرنے کا ( حضرت ) نوح ( علیہ السلام ) کو حکم فرمایا تھا اور جس کی ( اے محمد ! صلی اللہ علیہ و سلم ) ھم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ( حضرت ) ابراھیم و موسی و عیسی ( علیہم السلام ) کو حکم دیا تھا ۔ ( وہ یہ ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا " ۔ ( الشوری : 13) ۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خطبہ جمعۃ المبارک
خطبہ جمعۃ المبارک فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن قاسم
امام و خطیب حرم نبوی الشیخ عبدالمحسن قاسم صاحب نے خطبہ جمعتہ المبارک کا آغاز اللہ رب العزت کی حمدو ثناء اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام سے کیا اس کے بعدتقویٰ کی تلقین کی پھر انہوں نے فرمایا تقویٰ ہی اعمال صالح کے درست ہونے کی اصل بنیاد ہے جو عمل بھی اللہ تعالیٰ سے اخلاص اور سنت کے مطابق کیا جاتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں درجہ قبولیت عطا کی جاتی ہے اور جو خلاف شرئعت ہوتاہے اگرچہ وہ عمل صالح ہو اس کو اللہ کے ہاں غیر مقبول کیا جاتا ہے اور اس کی اللہ کے ہاں کوئی قیمت نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے بےشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیا ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت الفردوس بنائی ہے اور وہ اس میں رہیں گے۔ امام صاحب نے فرمایا کہ اعمال میں اخلاص اور پاکیزگی ہونا چاہیے جو صحیح عقیدے کے ساتھ کیے جائیں اس میں کسی قسم کی کھوٹ یا ملاوٹ نہیں ہونا چاہیے انسان کے لیے امن و سکون اور درجات میں بلندی کا باعث بنتے ہیںاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک سے صاف رکھا تو وہی مامون اور ہدایت یاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اعمال صالح اس طرح کرنے کا حکم دیا کہ ان میں کسی قسم کے شرک کا شیبہ نہ ہو جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہوں اور اخلا ص پر مبنی ہوں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو کچھ تمہاری جانب اور تم سے پہلے کی جانب وحی کی گئی تھی کہ اگر تم نے عمل میں شرک کیا تو تمہارا عمل باطل ہو جائے گا ، دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا اس پر جنت حرام کر دی جائے گی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اس مبارک گھر بیت اللہ کی تعمیر کی تو اس کے بعد فرمایا ( جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ) جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے میرے پروردگار اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے دور رکھ ، اے میرے معبود انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ حق سے ہٹا دیا ہے یعنی گمراہ کر دیا ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہے لہذا ان کو سب سے پہلے شہادت اشھد ان لا الہ الا اللہ کی جانب دعوت دینا یعنی وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
امام صاحب نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے دور رہو شرک نہایت خطرناک بات ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ، اللہ کے علاوہ کسی دوسری چیز کی عبادت نہ کرو وہ تم کو نہ نفع پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تم نے ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔
جادو انتہائی گندہ کام ہے جو ایمان کی روشنی کو مدہم کرنے کے ساتھ اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہی جانتے ہیں کہ اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اس طرح کے لوگوں کے پاس جانا ، ان سے کسی کے خلاف مدد لینا یہ دین میں فساد اور عقل میں فتور کی دلیل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ کے سوا زمین اور آسمانوں میں غیب کا علم کسی کو نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے نجومی یا کاہن سے کسی بات کے بارے میں دریافت کیا اور اس پر یقین کیا تو وہ یہ سمجھ لے کہ اس نے اس کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے یعنی اسلام کے بنیادی اصول کا انکار کیا اس طرح امام صاحب نے فرمایا کہ تعویز گنڈے بھی صرف ابہام اور غلط عقیدے کی پیداوار ہیں۔
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سوئیں جیسی چیز دیکھی تو آپ نے ان سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے انہوں نے جواب دیا۔ یہ وہمہ ہے ، آپ نے فرمایا اس کو اتار دو یہ سخت وہم ہے اگر تم کو اسی حالت میں موت آ گئی کہ یہ تمہارے پاس تھا تو تم کو کامیابی نہیں ہوگی اس قسم کے استعمال کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے تعویز پہنا اس نے شرک کیا۔
امام صاحب نے فرمایا کہ درختوں اور تسموں سے برکت کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور جمادات ہیں جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ اسی طرح قربانی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے اور جو بھی اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے قربانی کرتا ہے یا کوئی جانور ذبح کرتا ہے تو وہ شرک میں مبتلا ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت بھیجی ہے جو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر ذبح کر تا ہے۔ اسی طرح نذر بھی صرف اللہ سے مانگنا چاہیے وہی لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اس کو یہ حق ہے کہ اس سے جو نذر مانی جائے وہ اس کو پورا فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اللہ کی اطاعت کے لیے نذر مانی وہ اس کو پورا کرے گا اور جو اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پناہ دیتا ہے۔
امام صاحب نے فرمایا کہ اعمال صالح کے ثواب کی امید صرف اللہ تعالیٰ سے کرنا چاہیے اس سے دنیا کی زیب و زینت مقصود نہ ہو کیونکہ عمل صالح کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مکمل طور پر راغب ہوگا اور عمل صالح سے دنیا طلب کرے گا تو اس کے اعمال رائیگاں چلے جائیں گے اور وہ آخرت میں خسارہ اور نقصان میں رہے گا۔ ارشاد ربانی ہے جو دنیاوی زندگی اور زینت چاہتا ہے ہم ان کے تمام اعمال کا پورا بدلہ دے دیتے ہیں اور وہ یہ بدلہ دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔
امام مسجد نبوی شریف نے فرمایا اللہ کا بندہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کرتا اس کے دل میں اللہ کی محبت کے ساتھ یہ یقین رہتا ہے کہ وہی صرف اس کے دل کا حال جانتا ہے اور وہی اس کی امیدیں اور توقعات پوری کر سکتا ہے اور وہی محبت کا مستحق ہے لہذا اگر قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے تو صرف اللہ کے نام کی قسم کھائی جائے کسی دوسری چیز کی قسم نہ کھائیں اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ جس نے اللہ کے علاوہ کسی غیر کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا یا کفر کیا۔
مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب عبدالمحسن قاسم نے فرمایا کہ اگر آپ کو کسی آزمائش میں مبتلا کیا جائے یا کسی آزمائش میں مبتلا ہو جائیں یازمانے میں پریشانی آئے تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو کسی دوسرے سے ہرگز مدد مت مانگو کیونکہ اللہ ہی پریشانیوں اور آزمائشوں سے نکال سکتا ہے ارشاد ربانی ہے کیا کوئی ہے جو مجبور اور پریشانی کی پکار اس کے علاوہ سنا ہو ؟
آپ کو کوئی مصبیت اور تکلیف پہنچے تو اس کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرو ، سر تسلیم خم کردو اس کو رضائے الٰہی سمجھو۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ جو اللہ پر یقین رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو سکون دیتا ہے۔
امام صاحب نے کہا کہ یہ مت کہا کرو کہ تو ایسا کرتا تو ایسا ہوتا اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہو جاتا کیونکہ یہ کہنا شیطان کا شیوہ ہے اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچے تو یہ مت کہو کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہو جاتا بلکہ یہ کہو اللہ کا فیصلہ تھا اس کے بموجب ایسا ہو ا۔
امام صاحب نے جمعتہ المبارک کے اختتام پر دعائیں کیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھا۔
ترتیب وتزئین عبدالحنان خان