اس ماہ مبارک کی فضیلت میں
بعض روایات بہت مشہور ہیں۔ لیکن وہ سند کے لحاظ سے کمزور ہیں۔ اس لیے ان کو بیان
کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہم تنبیہ کے طور پر انہیں بھی یہاں درج کرتے ہیں، تاکہ
ضعیف روایات بھی لوگوں کے علم میں آجائیں، جنہیں خطیبان خوش بیان اور واعظان شیریں
مقال اپنے وعظ و خطبات میں اکثر بیان کرتے ہیں۔
جیسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے، جس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
(خطبنا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔من النار)
’’یہ روایت شعب الایمان بیہقی کے حوالے سے مشکوٰة میں درج ہے، مشکوہ ایک نہایت
متداول کتاب ہے جو تمام مدارس دینیہ کے نصاب میں شامل ہے۔ اور امام بیہقی کی شعب
الایمان چند سال قبل تک غیر مطبوعہ مخطوطے کی شکل میں صرف بعض کتب خانوں میں محفوظ
تھی۔ اس لیے عام اہل علم و تحقیق اس کی سند دیکھ کر اس کی صحت و ضعف کا حال معلوم
کرنے سے قاصر تھے۔ اگرچہ بعض شارحین نے اس کی سند میں بعض راویوں کے ضعف کی صراحت
کر کے اس حدیث کو غیر صحیح قرار دیا ہے، جیسے علامہ عینی نے عمدة القاری شرح صحیح
بخاری میں صراحت کی، حافظ ابن حجر نے بھی اپنے اطراف میں اس کی صراحت کی، اور بھی
بعض محدثین نے اس کی صراحت کی۔ ان کے ان اقوال کو تنقیح الرواة اور پھر مرعاة
المفاتیح میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ جس سے اس روایت کا ضعف بالکل واضح ہے۔
لیکن پھر بھی اس کا علم چند اہل علم و تحقیق تک ہی محدود رہا۔ عام علماء و واعظ
حضرات اس حدیث کو بیان ہی کرتے رہے۔ اللہ بھلا کرے شیخ البانی رحمہ اللہ کا کہ پھر
انہوں نے بھی اپنی تعلیقات مشکوہ میں اس کے ضعف کی صراحت کی۔ شیخ البانی کی تالیفات
اور تحقیقات کو اللہ نے اہل علم و تحقیق کے حلقوں میں جو حسن قبول عطا فرمایا ہے،
اس کی وجہ سے اس روایت کے ضعف کا علم عام ہوا، کیونکہ شیخ البانی کی تحقیق کے ساتھ
شائع ہونے والے مشکوة بھی اہل علم میں متد اول ہے۔ مشکوة پر شیخ الالبانی کی مختصر
تعلیقات و تحقیقات کا یہ بڑا فائدہ ہوا کہ مشکوة کی متعدد احادیث جو ضعیف تھیں ،
اور لوگ انہیں بے دھڑک بیان کرتے تھے ، اب ان کے ضعف سے اہل علم کی اکثریت واقف ہوتی
جا رہی ہے۔ اور شیخ کی اس کاوش و تحقیق سے نقد حدیث کا ذوق بھی عام ہوا اور احادیث
کی تحقیق و تخریج کے رجحان کو بھی بڑا فروغ ملا ہے۔
جزاہ اللہ
عنا وعن جمیع المسلمین خیر الجزاء۔
بہرحال مقصود اس تفصیل سے یہ ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو
مذکورہ حدیث مشہور ہے ، سند کے لحاظ سے بالکل ضعیف ہے۔ ایسی سخت ضعیف حدیث کا بیان
کرنا صرف نا جائز ہی نہیں ہے۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ اس کا بیان کرنے والا
(من کذب علی ۔۔۔۔
من النار) (صحیح بخاری، العلم، حدیث: ۱۱۰) جیسی
وعید کا مستحق نہ بن جائے۔
(من افطر
یوما من۔۔۔۔۔۔وان صامہ) (ذکرہ البخاری تعلیقا، باب جامع فی رمضان، واخرجہ الاربعة)
’’جس نے بغیر کسی عذر اور بیماری کے ، رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا، وہ ساری زندگی
بھی اس کی قضاء دیتا رہے تو اس کی قضاء نہیں ہوگی۔‘‘
2یہ روایت امام بخاری نے تعلیقاً روایت کی ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ اس
روایت میں تین علتیں ہیں، ایک اضطراب ، دوسری ابو المطوس روای کی جہالت اور تیسری
یہ شک کہ ابو المطوس کے باپ کا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت ہے یا نہیں؟
(تفصیل کے لیے دیکھیے فتح الباری ، باب مذکور)
شيخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ روایت ضعیف ہے، چنانچہ انہوں نے اسے ضعیف ابی
داؤد، ضعیف ترمذی، ضعیف ابن ماجہ اور ضعیف الجامع ہی میں نقل کیا ہے۔
3 مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رمضان کے روزے رکھنا، دوسری جگہوں کے مقابلے میں
ہزار رمضان سے افضل ہیں۔ یہ دو روایات ہیں جو مجمع الزوائد میں ہیں اور دونوں ضعیف
ہیں۔ (مجمع الزوائد، طبع جدید، بہ تحقیق عبداللہ محمد الدرویش، ج:۳، ص۳۴۹،۳۴۸)
4 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عورتوں نے روزہ رکھا ، پیاس کی شدت سے وہ
سخت نڈھال ہو گئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا تو آپ خاموش رہے، پھر
دوپہر کو دوبارہ آپ سے عرض کیا گیا وہ مرنے لگی ہیں۔ آپ نے ان دونوں عورتوں کو
بلوایا اور ایک بڑا پیالہ منکوایا اور باری باری دونوں سے کہا، اس پیالے میں قے
کرو۔ تو دونوں نے خون اور پیپ کے قے کی۔ دونوں کی قے سے پیالہ بھر گیا۔ آپ نے
فرمایا: انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں (کھانے پینے) سے تو روزہ رکھا اور
اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے روزہ کھولتی رہیں۔ یہ آپس میں بیٹھی ہوئیں لوگوں
کا گوشت کھاتی (یعنی غیبت کرتی) رہیں۔ (مجمع الزوائد ۳۹۹/۳) روزے میں غیبت وغیرہ سے
تو ضرور پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے۔
بشکریہ رمضان کے فضائل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف حافظ صلاح الدین یوسف
عیدمیلادتاریخ وارتقاء
بلاناغہ ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ
کو 'عید میلاد النبیؐ کے نام پر جشن منایا جاتا ہے۔ ربیع الاول کے شروع
ہوتے ہی اس جشن میلاد کی تقریبات کے
انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔ نوجوان گلی کوچوں اور چوراہوں میں راہ گیروں کا راستہ
روک کر زبردستی چندے وصول کرتے ہیں۔ علما حضرات مسجدوں میں جشن ولادت
منانے کے لئے دست سوال دراز کرتے ہیں۔پھر بارہ ربیع الاول کو نبی اکرمؐ کے یوم
ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، پرتکلف دعوتوں
کا اہتمام کیا جاتااور گلیوں، بازاروں ، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے،
جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، تانگوں، گدھا گاڑیوں اور بسوں میں سوار ہوکر پورے ملک میں
اللہ کے رسولؐ سے محبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ جشن، یہ میلاد اور یہ
سلسلۂ تقریبات اللہ کے رسولؐ سے محبت کے اظہار کا ذریعہ گردانا جاتا ہے اس لئے
چاروناچار حب ِرسولﷺ سے سرشار ہر پیروجوان حسب ِحیثیت اس میں شمولیت کا ثبوت مہیا
کرتا ہے۔ گورنمنٹ بھی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے اور حضورِ اکرم ﷺ کی رسالت کا
احترام کرتے ہوئے سرکاری طور پر چھٹی کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ حکومتی سطح پر
بڑی بڑی سیرت کانفرنسوں کا بھی انعقاد کرتی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کا اظہار بجاہے
اور آپؐ کی عقیدت و احترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے ... مگر دیکھنا یہ ہے کہ
حضورؐ سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن و جلوس کا یہ سلسلہ حضورؐ کے لائے ہوئے دین کی
رو سے جائز بھی ہے یا نہیں.؟ شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟
اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں.؟!
عید ِمیلاد چونکہ آنحضرتؐ سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ اسلئے مناسب معلوم
ہوتا ہے کہ سردست آنحضرتؐ سے محبت اور اسکے معیار و تقاضے پر بھی روشنی ڈال دی
جائے۔
حضورؐ سے محبت کا معیار
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرتؐ سے سچی قلبی محبت جزوِایمان ہے اور وہ بندہ
ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل آنحضرتؐ کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ
سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان
ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد
اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔'' (بخاری: کتاب الایمان: باب حب
رسول من الایمان؛۱۴)
صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک
ایماندار کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے
بڑھ کر اس کے دل میں میری محبت نہ پیدا ہوجائے۔'' (ایضاً ؛۱۵)
لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟ کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کردینا ہی
کافی ہے یا اس کے لئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟ صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی
دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ
یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم و جان پر اللہ کے رسولؐ کے ارشادات و فرمودات کی حاکمیت
ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیث ِنبوی ﷺکی روشنی میں
صادر ہوتا ہو۔ اس کی ساری زندگی اللہ کے رسولﷺ کے اُسوئہ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔
اللہ کے رسولؐ کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپؐ کی
نافرمانی کو موجب ِعذاب خیال کرتا ہو۔ لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے
رسولؐ کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپﷺ کی سنت و ہدایت کے مقابلہ میں بدعات و رسومات
کو ترجیح دیتا ہو تو ایسا شخص 'عشق رسول ؐاور حب ِرسولﷺ کا لاکھ دعویٰ کرے یہ کبھی
اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے تو سمجھتا
رہے مگر اللہ کے رسولﷺ ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں کیونکہ آپؐ کا
ارشاد گرامی ہے: ''فمن رغب عن سنتي فلیس مني'' (بخاری؛۵۰۶۳) ''جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ
سے کوئی تعلق نہیں۔''
تیسری عید کہاں سے آئی؟
۱۲؍ ربیع الاول کو نہ صرف آنحضرت ﷺ کے یومِ
ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے تیسری 'عید' سے بھی موسوم کیا جاتا ہے،
حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں۔ ان دو عیدوں کو خوشی
کا تہوار آنحضرتؐ نے بذاتِ خود اسی طرح مقرر فرمایا ہے جس طرح آپؐ نے حلال و حرام
کو متعین فرمایا ہے۔ جیسا کہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺمدینہ منورہ تشریف
لائے تو وہاں کے لوگ خوشی کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ آنحضرتؐ کے استفسار پر انہوں
نے کہا کہ قدیم دورِ جاہلیت سے ہم اسی طرح یہ تہوار مناتے آرہے ہیں تو اللہ کے رسول
ؐ نے فرمایا: ''إن اللہ قد أبدلکم بھما خیرا منھما یوم الأضحٰی ویوم الفطر''
(ابوداود: کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین ؛۱۹۳۱) ''اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں
تمہیں ان سے بہتر دو خوشی کے دن عطا فرمائے ہیں ؛ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی
ہے۔''
ان دونوں عیدوں کے موقع پر باادب طریقہ سے نمازِ عید ادا کی جاتی اور اللہ کا شکر
بجا لایا جاتا ہے۔ نیز عیدالاضحی کے موقع پر جانور قربان کئے جاتے ہیں، مگر
۱۲؍ ربیع الاول کی 'عیدمیلاد' کو اوّل تو آنحضرتؐ نے مقرر ہی نہیں فرمایا
پھر اسے عید قرار دینے والے اس روز نمازِ عید کی طرح کوئی نماز ادا نہیں کرتے اور
نہ ہی عیدالاضحی کی طرح قربانیاں کرتے ہیں اور فی الواقع ایسا کیا بھی نہیں جاسکتا
کیونکہ یہ 'عید' ہے ہی نہیں مگر اس کے باوجود اسے عید ہی قرار دینا بے جا تحکم، ہٹ
دھرمی اور شریعت کی خلاف ورزی نہیں تو پھر کیا ہے؟
یہ جشن ِولادت ہے یا جشن ِوفات؟
۱۲؍ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور
کرایا جاتا ہے کہ یہ آنحضرتؐ کی ولادت کا دن ہے حالانکہ
۱۲ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین
کا ہرگز اتفاق نہیں۔ البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق
ہے کہ
۱۲؍ ربیع الاول کو حضورؐ کی وفات ہوئی۔ جیسا کہ مندرجہ تفصیل سے واضح ہوتا
ہے :
یومِ ولادت کی تاریخ
تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرتؐ کی ولادت
باسعادت سوموار کے دن ہوئی جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات
ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولؐ سے سوموار کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو
آپؐ نے ارشاد فرمایا:
''ذاک یوم ولدت فیہ ویوم بعثت أو أنزل علی فیہ'' ''یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا
ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔''
(مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ
ایام ؛۱۱۶۲)
البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ حضورؐ کی تاریخ ولادت کیا ہے۔ حافظ ابن
کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضورؐ عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے
ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا)میں پیدا ہوئے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس
میں بھی اختلاف نہیں کہ آپؐ سوموار کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل
علم کا مسلک یہ ہے کہ آپؐ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپؐ اس ماہ کے
اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے
متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے
بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ پھر حافظ ابن
کثیرؒ نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود
ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔ (تفصیل کے لئے
ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا
۲۶۲؍
ج۲) علاوہ ازیں بہت محققین نے
۱۲ کی بجائے
۹ ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے ، مثلاً
1۔قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت
دان:قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہورہیئت دان محمود پاشا فلکی نے
اپنی کتاب 'التقویم
العربی قبل الاسلام'
میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ''عام
الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول 'حضرت
ابراہیمؑ کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو آنحضرتؐ کی
وفات کی صحیح تاریخ
۹
ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت
۲۰
؍اپریل
۵۷۱ء بروز پیر کی صبح قرار
پاتا ہے۔'' (بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص۶۲ ج۱/
حدائق الانوار:ص۲۹
؍ج۱)
2۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ
کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب 'الرحیق
المختوم' کے مصنف کے بقول ''رسول اللہؐ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر
۹؍
ربیع الاول سن۱، عام الفیل یوم دو شنبہ
(سوموار) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔'' (ص:۱۰۱)
3۔ برصغیر کے معروف مؤرخین مثلاً
علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی
۹؍
ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحقیق جدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا
ہے۔ (دیکھئے:سیرت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱؍ ج۱/تاریخ اسلام از اکبر شاہ
:ص۸۷
؍ج۱/رحمۃ للعالمین از منصور پوری: ص۳۶۱ ج۲)
۱۲
ربیع الاول یوم وفات ہے !
جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
۱۲؍
ربیع الاول حضورؐ کا یوم وفات ہے۔ بطورِ مثال چند ایک حوالہ جات سپردِ قلم کئے جاتے
ہیں:
1۔ ابن سعد، حضرت عائشہؓ اور
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ ربیع الاول کی بارہ تاریخ
کو فوت ہوئے۔ (طبقات ابن سعد : ص۲۷۲ ج۲)
2۔ حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا
ہے ۔ (دیکھئے تاریخ اسلام از ذہبی: ص۵۶۹)
3۔ حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے
حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسولؐ
۱۲؍ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (البدایۃ والنھایۃ:
۲۵۵؍۵)
4۔ مؤرخ ابن اثیرؒ رقم طراز ہیں
کہ نبی اکرمؐ
۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔ (اسدالغابۃ:
۴۱؍۱/الکامل:۲۱۹؍۴)
5۔ حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ہی
جمہور کا موقف قرار دیا۔ (فتح الباری
۲۶۱؍۱۶)
6۔ محدث ابن حبان کے بقول بھی
تاریخ وفات
۱۲
ربیع الاول ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن حبان: ص۴۰۴)
7۔ امام نوویؒ نے بھی اس کی
تائید کی ہے۔ (شرح مسلم :۱۵؍۱۰۰)
8۔ مؤرخ و مفسر ابن جریر طبریؒ
نے بھی
۱۲؍
ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔ (تاریخ طبری:۲۰۷؍۳)
9۔ امام بیہقی کی بھی یہی رائے
ہے۔ (دلائل النبوۃ:
۲۲۵؍۷)
10۔ ملا علی قاریؒ کا بھی یہی
فیصلہ ہے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ:
۱۰۴؍۱۱)
11۔سیرت نگار مولانا شبلی نعمانیؒ
کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ (سیرت النبیﷺ: ص۱۸۳؍ج۲)
12۔. قاضی سلیمان منصور پوری کی
بھی یہی رائے ہے۔ (رحمۃ للعالمین:ص۲۵۱ ج۱)
13۔ صفی الرحمن مبارکپوری کا بھی
یہی فیصلہ ہے۔ (الرحیق: ص۷۵۲)
14۔ ابوالحسن علی ندوی کی بھی یہی
رائے ہے۔ (السیرۃ النبویۃ: ص۴۰۴)
15۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی
کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ
۱۲ ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔ (ملفوظات)
ایک اور تاریخی حقیقت
گذشتہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ
۱۲؍ ربیع الاول یومِ ولادت نہیں بلکہ یوم وفات النبیؐ ہے اور برصغیر میں
عرصۂ دراز تک اسے '۱۲
وفات' کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس دن جشن اور خوشی منانے والوں پرجب یہ
اعتراض ہونے لگے کہ یہ تو یوم وفات ہے اور تم وفات پر شادیانے بجاتے ہو!... تو اس
معقول اعتراض سے بچنے کے لئے کچھ لوگوں نے اس کا نام '۱۲
وفات' کی بجائے
'عیدمیلاد'
رکھ دیا جیسا کہ روزنامہ 'مشرق' لاہور کی
۲۶؍ جولائی
۱۹۸۴ء
کی درج ذیل خبر سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے : ''اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے
نام سے منسوب تھا مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت
علی شاہ ، مولانا محمد بخش مسلم، نور بخش توکلی اور دیگرعلما نے ایک قرار داد کے
ذریعے اسے 'میلادالنبیؐ ' کا نام دے دیا۔''
قصہ مختصر کہ اس روز جشن اور خوشیاں منانے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنی
چاہئے کہ وہ جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں، وہ نبی اکرم ﷺ کا یومِ پیدائش نہیں بلکہ
یوم وفات ہے!
اگر یہ جشن ولادت ہے تو تب بھی بدعت ہے
!
اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ
۱۲؍ ربیع الاول ہی آنحضرت ﷺ کا یومِ ولادت ہے تو تب بھی اس تاریخ کو جشن
عید اور خوشیاں منانا اور اسے کارِ ثواب سمجھنا از روئے شریعت درست نہیں کیونکہ جب
خود حضورؐ نے اپنی ولادت کا
'جشن' نہیں منایا، کبھی 'عیدمیلاد' کا انتظام
یا حکم نہیں فرمایا، نہ ہی صحابہ کرام
نے کبھی یہ خود ساختہ 'عیدمیلاد' منائی اور نہ تابعین ، تبع تابعین،
مفسرین ، محدثین اور ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام
احمد بن حنبلؒ) سے اس کا کوئی ثبوت فراہم ہوتا ہے تو لامحالہ یہ دین میں اضافہ ہے
جسے آپ بدعت کہیں یا کچھ اور... بہرصورت اگر اسے کارِ ثواب ہی قرار دینا ہے تو پھر
اس ہٹ دھرمی سے پہلے اعلان کردیجئے کہ آنحضرتؐ سمیت تمام صحابہ،
تابعین، تبع تابعین وغیرہ اس ثواب سے محروم رہے اور ہم گنہگار (نعوذ باللہ) ان عظیم
لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں!
بدعت ِعیدمیلاد کا موجد کون؟
عیدمیلاد کاجشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں
فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حب ِنبویﷺ اور حب ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب
انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف' میلاد النبیؐ'
کا تہوار جاری کیا بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم
اجمعین کے 'میلاد' بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال
دی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ ''یہ کافر و فاسق،
فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویت کے معتقد تھے۔
انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو
حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیاکرام ؑ کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے
تھے۔''
نیز لکھتے ہیں کہ ''فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔
ان کے ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں منکرات
و بدعات ظہور پذیر ہوئیں.سلطان صلاح الدین ایوبی نے
۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور
۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔'' (البدایۃ والنھایۃ :
۱۱؍۲۵۵ تا
۲۷۱)
بدعت ِعیدمیلاد اور میلاد حسن و حسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے
ثبوت کے لئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہیں
:
1۔ مصر ہی کے ایک معروف مفتی
علامہ محمد بخیت اپنی کتاب
''أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الأحکام''
میں صفحہ
۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ ''إن
أول من أحدثھا بالقاھرۃ الخلفاء الفاطمیون وأولھم المعز لِدین اﷲ توجہ من المغرب
إلی مصر فی شوال سنۃ
(۳۶۱ھ)
إحدی وستین وثلاث مائۃ
ھجریۃ ...'' ''سب
سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں
سے بھی المعزلدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے
یعنی میلادالنبیؐ، میلادِ علیؓ، میلادِ فاطمہؓ، میلادِ حسنؓ، میلادِ حسینؓ، اور
حاکم وقت کا میلاد.. یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن
امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔''
2۔ علامہ تقی الدین احمد بن علی
مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں
: ''کان للخلفاء الفاطمیین فی طول
السنۃ أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنۃ وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبی ا
ومولد علی بن أبی طالب ومولد فاطمۃ الزھرأ ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفۃ
الحاضر''(المواعظ
والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱؍ ص۴۹۰) ''فاطمی
حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز (New year)
پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبیؐ، میلادِ علیؓ، میلاد
فاطمۃ الزہراؓ، میلادِ حسنؓ، میلاد حسینؓ اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔''
3۔ علامہ ابوالعباس احمد بن علی
قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: '' فاطمی حکمران
۱۲؍
ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ
دارالفطرۃ (مقام) میں
۲۰ قنطار (پیمانہ) عمدہ
شکر سے انواع و اقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے
۳۰۰ خوبصورت برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک
ِمیلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی و مبلغ اور خطباء و قرأ حضرات،
قاہرہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان و
نگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔'' (دیکھئے:
صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ، ج۳؍
ص۴۹۸ تا
۴۹۹)
بدعت ِمیلاد سے متعلقہ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الابداع في مضار
الابتداع
(ص۱۲۶)
از شیخ علی محفوظ، البدعۃ
ضوابطھا وأثرھا السیئۃ في الأمۃ (ص
۱۶تا۲۱)
از ڈاکٹر علی بن محمد ناصر،
القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل (ص۶۴
تا
۷۲)
از شیخ اسماعیل بن محمد
الانصاری، المحاضرات الفکریۃ، ص۸۴
از سیدعلی فکری ... وغیرہ
بدعت ِمیلاد ؛ مصر کے فاطمیوں سے عراق (اِربل و موصل) کے سنّیوں تک
عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا،
وہ اگرچ
abdul kalam khan
abu noman khan
subhan khan