حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کا اظہار بجاہے اور آپﷺ کی عقیدت و احترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے ... مگر دیکھنا یہ ہے کہ حضورﷺ سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن و جلوس کا یہ سلسلہ حضورﷺ کے لائے ہوئے دین کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں.؟ شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں.؟!
عید ِمیلاد چونکہ آنحضرتﷺ سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ اسلئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سردست آنحضرتﷺ سے محبت اور اسکے معیار و تقاضے پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔
بدعت ِعیدمیلاد کا موجد کون؟
عیدمیلاد کاجشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حب ِنبویﷺ اور حب ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف' میلاد النبیؐ' کا تہوار جاری کیا بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے 'میلاد' بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ ''یہ کافر و فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیاکرام ؑ کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔''
نیز لکھتے ہیں کہ ''فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔ ان کے ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں منکرات و بدعات ظہور پذیر ہوئیں.سلطان صلاح الدین ایوبی نے ۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور ۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔'' (البدایۃ والنھایۃ : ۱۱؍۲۵۵ تا ۲۷۱)
بدعت ِعیدمیلاد اور میلاد حسن و حسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے ثبوت کے لئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہیں :
1۔ مصر ہی کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت اپنی کتاب ''أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الأحکام'' میں صفحہ ۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ ''إن أول من أحدثھا بالقاھرۃ الخلفاء الفاطمیون وأولھم المعز لِدین اﷲ توجہ من المغرب إلی مصر فی شوال سنۃ (۳۶۱ھ) إحدی وستین وثلاث مائۃ ھجریۃ ...'' ''سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعزلدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلادالنبیؐ، میلادِ علیؓ، میلادِ فاطمہؓ، میلادِ حسنؓ، میلادِ حسینؓ، اور حاکم وقت کا میلاد.. یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔''
2۔ علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں : ''کان للخلفاء الفاطمیین فی طول السنۃ أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنۃ وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبی ا ومولد علی بن أبی طالب ومولد فاطمۃ الزھرأ ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفۃ الحاضر''(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱؍ ص۴۹۰) ''فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز (New year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبیؐ، میلادِ علیؓ، میلاد فاطمۃ الزہراؓ، میلادِ حسنؓ، میلاد حسینؓ اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔''
3۔ علامہ ابوالعباس احمد بن علی قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: '' فاطمی حکمران ۱۲؍ ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ دارالفطرۃ (مقام) میں ۲۰ قنطار (پیمانہ) عمدہ شکر سے انواع و اقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے ۳۰۰ خوبصورت برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک ِمیلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی و مبلغ اور خطباء و قرأ حضرات، قاہرہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان و نگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔'' (دیکھئے: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ، ج۳؍ ص۴۹۸ تا ۴۹۹)
بدعت ِمیلاد سے متعلقہ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الابداع في مضار الابتداع (ص۱۲۶) از شیخ علی محفوظ، البدعۃ ضوابطھا وأثرھا السیئۃ في الأمۃ (ص ۱۶تا۲۱) از ڈاکٹر علی بن محمد ناصر، القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل (ص۶۴ تا ۷۲) از شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری، المحاضرات الفکریۃ، ص۸۴ از سیدعلی فکری ... وغیرہ
بدعت ِمیلاد ؛ مصر کے فاطمیوں سے عراق (اِربل و موصل) کے سنّیوں تک
عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا، وہ اگرچہ خلیفہ افضل بن امیر الجیوش نے اپنے عہد ِحکومت میں ختم کردیا مگر اس کے مضر اثرات اطراف واکناف میں پھیل چکے تھے۔ حتیٰ کہ رافضی شیعوں سے سخت عداوت رکھنے والے سنی بھی ان کی دیکھا دیکھی عیدمیلاد منانے لگے۔ البتہ سنیوں نے اتنی ترمیم ضرور کرلی کہ شیعوں کی طرح میلادِ علیؓ، میلادِ حسنؓ و حسینؓ وغیرہ کی بجائے صرف میلاد النبیﷺ پر زور دیا۔ چنانچہ ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المعروف ابوشامہ کے بقول : ''وکان أول من فعل ذلک بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا أحد الصالحین المشھورین وبہ اقتدی فی ذلک صاحب إربل وغیرہ'' (الباعث علی انکار البدع والحوادث ص۲۱) ''(سنیوں میں سے) سب سے پہلے موصل شہر میں عمر بن محمد ملا نامی معروف زاہد نے میلاد منایا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی 'اربل'کے حاکم نے بھی (سرکاری طورپر) جشن میلاد منانا شروع کردیا۔'' اربل کا یہ حاکم ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن بکتیکن بن محمد تھا جو مظفر الدین کوکبوری کے لقب سے معروف تھا۔ ۵۸۶ ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے اربل کا گورنر مقرر کیا مگر یہ بے دین، عیاش اور ظالم و سرکش ثابت ہوا جیسا کہ یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ : ''یہ گورنر بڑا ظالم تھا، عوام پر بڑا تشدد کرتا، بلا وجہ لوگوں کے اَموال ہتھیالیتا اور اس مال ودولت کو غریبوں، فقیروں پر خرچ کرتا اور قیدیوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتااور ایسے ہی شخص کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ ؎
کساعیۃ للخیر من کسب فرجھا لک الویل لا تزنی ولا تتصدقی ''یہ تو اس عورت کی طرح ہے جو بدکاری کی کمائی سے صدقہ خیرات کرتی ہے۔ اے بدکار عورت! تیرے لئے ہلاکت ہے۔نہ تو زنا کر اور نہ ایسی گندی کمائی سے صدقہ کر۔'' (معجم البلدان:ص۱۳۸، ج۱)اسی 'صاحب ِاربل' ہی کے بارے میں امام سیوطی رقم طراز ہیں کہ ''وأول من أحدث فعل ذلک صاحب إربل الملک المظفر أبوسعید کوکبوري'' (الحاوی للفتاوی: ص۱۸۹ ج۱)''سب سے پہلے (اربل میں) جس نے عید ِمیلاد کی بدعت ایجادکی، وہ اربل کا حاکم الملک المظفر ابوسعید کوکبوری تھا۔''
شاہِ اربل بدعت ِمیلاد کا انعقاد کس جوش و خروش اور اہتمام و انصرام سے مناتا تھا، اس کا تذکرہ ابن خلکان نے ان الفاظ میں کیا ہے:
''محرم کے شروع ہوتے ہی بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار، نصیبین اور عجم کے شہروں سے فقہا، صوفیا، وعظا، قرأ اور شعرا حضرات اربل آنا شرو ع ہوجاتے اور شاہ اربل مظفرالدین کوکبوری ان 'مہمانوں' کے لئے چار چار، پانچ پانچ منزلہ لکڑی کے قبے تیار کرواتا۔ ان میں سب سے بڑا قبہ اور خیمہ خود بادشاہ کا ہوتا اور باقی دیگر ارکانِ حکومت کے لئے ہوتے۔ ماہِ صفر کے آغاز میں ان قبوں اور خیموں کو خوب سجا دیا جاتا اور ہر قبے میں آلاتِ رقص و سرود کا اہتمام کیا جاتا۔ ان دنوں لوگ اپنی کاروباری اور تجارتی مصروفیات معطل کرکے سیرو تفریح کے لئے یہاں جمع ہوتے۔ حاکم وقت ہر روز عصر کے بعد ان قبوں کی طرف نکلتا اور کسی ایک قبے میں رقص و سرود کی محفل سے لطف اندوز ہوتا۔ پھر وہیں محفل میں رات گزارتا اور صبح کے وقت شکار کے لئے نکل جاتا، پھربو قت ِدوپہر اپنے محل میں واپس لوٹ آتا۔ عید ِمیلاد تک شاہِ اربل کا یہی معمول رہتا۔ ایک سال ۸؍ربیع الاول اور ایک سال ۱۲؍ ربیع الاول کو عیدمیلاد منائی جاتی۔ اس لئے کہ (اس وقت بھی ) آنحضرتﷺ کے یوم ولادت کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ عیدمیلاد سے دو دن پہلے شاہِ اربل اونٹوں، گائیوں اور بکریوں کی بہت بڑی تعداد اور طبلے، سارنگیاں وغیرہ کے ساتھ میلاد منانے نکلتا اور ان جانوروں کو ذبح کرکے شرکائے میلاد کی پرتکلف دعوت کی جاتی۔'' (وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان لابن خلکان : ص۱۱۷ ؍ج۴)
سبط ابن جوزی کا بیان ہے کہ ''اس بادشاہ (کوکبوری) کے منعقد کردہ جشن میلاد کے دستر خوان پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے اس نے دستر خوان پر ۵ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ۱۰۰ گھوڑے، ایک لاکھ پیالے اور ۳۰ ہزار حلوے کی پلیٹیں شمار کیں۔ اس کے پاس محفل میلا دمیں بڑے بڑے مولوی اور صوفی حاضر ہوتے جنہیں وہ خلعت ِفاخرہ سے نوازتا، ان کے لئے خیرات کے دروازے کھول دیتا اور صوفیا کے لئے ظہر سے فجر تک مسلسل محفل سماع منعقد کراتا جس میں وہ بذاتِ خود شریک ہوکر رقص کرتا۔ ہر سال اس محفل میلاد پر یہ بادشاہ تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔'' (مرآۃ الزمان: ص۲۸۱ ج۸)
بدعت ِمیلاد اور نفس پرست علماء
بدعت ِمیلاد جب شیعوں سے سنّیوں اور سنّیوں کے بھی بادشاہوں میں رائج ہوگئی تو اب ان بادشاہوں کے خلاف آواز حق بلند کرنا یا دوسرے لفظوں میں ان کے بدعات و خرافات پر مذمت کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس پرطرہ یہ کہ بعض خود غرض مولویوں نے بادشاہِ وقت کی ان تمام خرافات کو عین شریعت اور کارِ ثواب قرا ر دے دیا۔ چنانچہ عمر بن حسن المعروف ابن دحیہ اندلسی نامی ایک مولوی نے ''التنویر في مولد البشیر والنذیر'' نامی کتاب لکھی جس میں قرآن و سنت کے نصوص کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اور انہیں تاویلاتِ باطلہ کا لبادہ اوڑھا کر عید ِمیلاد کو شرعی امر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور بادشاہِ وقت سے ہزار دینار انعام حاصل کیا۔ (ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ۱۳؍۱۲۴/وفیات الاعیان: ۴؍۱۱۹/الحاوی للفتاوی: ۱؍۱۸۹)
واضح رہے کہ اس ابن دحیہ اندلسی کو محدثین نے ضعیف اور ناقابل اعتماد راوی قرار دیا ہے مثلاً امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ یہ متہم (جس پر جھوٹ کاالزام ہو) راوی ہے۔ (میزان الاعتدال :۳؍۱۸۶) اسی طرح حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ''یہ ظاہری مذہب کا حامل تھا۔ ائمہ کرام اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ خبیث اللسان، احمق، شدید متکبر، دینی اُمور میں کم علم اور بے عمل شخص تھا۔'' (لسان المیزان:ص۲۹۶؍ ج۴)
حضورﷺ سے محبت کا معیار
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرتﷺ سے سچی قلبی محبت جزوِایمان ہے اور وہ بندہ ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل آنحضرتﷺ کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔'' (بخاری: کتاب الایمان: باب حب رسول من الایمان؛۱۴)
صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے دل میں میری محبت نہ پیدا ہوجائے۔'' (ایضاً ؛۱۵)
لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟ کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کردینا ہی کافی ہے یا اس کے لئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟ صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم و جان پر اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات و فرمودات کی حاکمیت ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیث ِنبوی ﷺکی روشنی میں صادر ہوتا ہو۔ اس کی ساری زندگی اللہ کے رسولﷺ کے اُسوئہ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔ اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپﷺ کی نافرمانی کو موجب ِعذاب خیال کرتا ہو۔ لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے رسولﷺ کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپﷺ کی سنت و ہدایت کے مقابلہ میں بدعات و رسومات کو ترجیح دیتا ہو تو ایسا شخص 'عشق رسول ؐاور حب ِرسولﷺ کا لاکھ دعویٰ کرے یہ کبھی اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے مگر اللہ کے رسولﷺ ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ''فمن رغب عن سنتي فلیس مني'' (بخاری؛۵۰۶۳) ''جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔''
تیسری عید کہاں سے آئی؟
۱۲؍ ربیع الاول کو نہ صرف آنحضرت ﷺ کے یومِ ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے تیسری 'عید' سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں۔ ان دو عیدوں کو خوشی کا تہوار آنحضرتﷺ نے بذاتِ خود اسی طرح مقرر فرمایا ہے جس طرح آپﷺ نے حلال و حرام کو متعین فرمایا ہے۔ جیسا کہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ خوشی کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ قدیم دورِ جاہلیت سے ہم اسی طرح یہ تہوار مناتے آرہے ہیں تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ''إن اللہ قد أبدلکم بھما خیرا منھما یوم الأضحٰی ویوم الفطر'' (ابوداود: کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین ؛۱۹۳۱) ''اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو خوشی کے دن عطا فرمائے ہیں ؛ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی ہے۔''
ان دونوں عیدوں کے موقع پر باادب طریقہ سے نمازِ عید ادا کی جاتی اور اللہ کا شکر بجا لایا جاتا ہے۔ نیز عیدالاضحی کے موقع پر جانور قربان کئے جاتے ہیں، مگر ۱۲؍ ربیع الاول کی 'عیدمیلاد' کو اوّل تو آنحضرتﷺ نے مقرر ہی نہیں فرمایا پھر اسے عید قرار دینے والے اس روز نمازِ عید کی طرح کوئی نماز ادا نہیں کرتے اور نہ ہی عیدالاضحی کی طرح قربانیاں کرتے ہیں اور فی الواقع ایسا کیا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ 'عید' ہے ہی نہیں مگر اس کے باوجود اسے عید ہی قرار دینا بے جا تحکم، ہٹ دھرمی اور شریعت کی خلاف ورزی نہیں تو پھر کیا ہے؟
یہ جشن ِولادت ہے یا ؟
۱۲؍ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ آنحضرتﷺ کی ولادت کا دن ہے حالانکہ ۱۲ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں۔ البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول کو حضورﷺ کی وفات ہوئی۔ جیسا کہ مندرجہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے :
یومِ ولادت کی تاریخ
تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرتﷺ کی ولادت باسعادت سوموار کے دن ہوئی جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ سے سوموار کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ''ذاک یوم ولدت فیہ ویوم بعثت أو أنزل علی فیہ'' ''یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔'' (مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام ؛۱۱۶۲)
البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ حضورﷺ کی تاریخ ولادت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضورﷺ عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا)میں پیدا ہوئے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپﷺ سوموار کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپﷺ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپﷺ اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ پھر حافظ ابن کثیرؒ نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا ۲۶۲؍ ج۲) علاوہ ازیں بہت محققین نے ۱۲ کی بجائے ۹ ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے ، مثلاً
1۔قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت دان:قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہورہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب 'التقویم العربی قبل الاسلام' میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ''عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول 'حضرت ابراہیمؑ کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو آنحضرتﷺ کی وفات کی صحیح تاریخ ۹ ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت ۲۰ ؍اپریل ۵۷۱ء بروز پیر کی صبح قرار پاتا ہے۔'' (بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص۶۲ ج۱/ حدائق الانوار:ص۲۹ ؍ج۱)
2۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب 'الرحیق المختوم' کے مصنف کے بقول ''رسول اللہﷺ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹؍ ربیع الاول سن۱، عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔'' (ص:۱۰۱)
3۔ برصغیر کے معروف مؤرخین مثلاً علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی ۹؍ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحقیق جدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:سیرت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱؍