ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی حیات وخدمات کا مختصرجائزہ
۱۴۳۰ھ مطابق ۲۰۰۹ء کو مادرعلمی جامعہ سلفیہ بنارس اوراس کے ذمہ داران،اساتذہ،طلبہ اورفارغین کے لئے اگر عام الحزن قراردیا جائے توشاید بیجانہ ہوکہ اس سال جامعہ کے تین باکمال اورنامور اساتذہ یکے بعد دیگرے رحلت فرماگئے، سب سے پہلے ۹؍مئی ۲۰۰۹ء کو رئیس المصنفین والمحققین حضرۃ الاستاد مولانا محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ کی رحلت کا سانحہ پیش آیا اورکچھ دنوں بعد جامعہ کے قدیم اور علوم عقلیہ ونقلیہ کے ماہر مدرس استاذ گرامی مولانامحمدعابد رحمانی رحمہ اللہ کی وفات کے صدمہ سے ہم دوچارہوئے اور۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء بروزجمعہ جامعہ سلفیہ کے صدر، وکیل الجامعہ، مشفق مدرس ومربی اورآسمان صحافت کے نیرتاباں اورمیدان تصنیف وتالیف وترجمہ کے شہسوار مفکرجماعت علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی وفات کا صدمہ ہم سب کو سہناپڑا، یہ تینوں گرامی قدر شخصیات اپنے اپنے طورپر ملت وجماعت کا قیمتی سرمایہ تھیں، ان کی زندگی میں ممکن ہے کچھ لوگ ان کی اہمیت پورے طورپر محسوس نہ کرسکے ہوں مگر اب ہرچہارجانب دوردورتک نظردوڑانے پر ان کا نعم البدل توکجا بدل بھی دکھائی نہیں دیتا، اللہ تعالیٰ ان سب کی بال بال مغفرت فرمائے۔(آمین)
استاذمحترم ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی شخصیت بڑی ہمہ جہت اوران کی خدمات کادائرہ بڑا وسیع ہے، اس لئے اس مختصر مضمون میں ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پرروشنی ڈالنا اورتمام خدمات کا مفصل تذکرہ ناممکن ہے ،تاہم اختصار کے ساتھ آپ کی حیات وخدمات کا ایک جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،واللہ الموفق۔
ولادت ،تاریخ پیدائش اورخاندانی پس منظر:۔ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کی پیدائش شمال مشرقی ہندوستان کے معروف صنعتی قصبہ مؤ ناتھ بھنجن میں ۸؍اگست ۱۹۳۹ء میں ہوئی، مؤناتھ بھنجن اولاً ضلع اعظم گڈھ کے تحت ایک معمولی قصبہ تھا پھربہت جلد صنعت وحرفت میں ترقی کرکے اس نے ایک بڑے قصبہ کی حیثیت پائی اورتھوڑے ہی دنوں بعدیہ ایک شہر کے طورپر متعارف ہوا اوراسے اعظم گڈھ سے علیحدہ کرکے ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔
مؤناتھ بھنجن شروع ہی سے مختلف امتیازات وخصوصیات کا حامل رہا ، یہ مقام کپڑوں کی بُنائی خصوصاً ساڑیوں کی صنعت میں عالم گیر شہرت رکھتا رہا ہے، یہاں ہرمسلک اورنظریہ کے عربی اوراسلامی مدرسوں کی کثرت ہے، تیس چالیس برس قبل جب اس کی حیثیت ایک قصبہ سے زیادہ نہ تھا تب بھی یہاں صرف اپنی جماعت اہل حدیث کے کم ازکم تین ادارے پورے آب وتاب کے ساتھ علم کی نشر واشاعت میں مصروف تھے اورہرسال یہاں سے سیکڑوں علماء دستار فضیلت لے کر اپنے اپنے گھروں کو واپس جاتے تھے، اوراب توجماعتی اورغیرجماعتی تعلیمی اداروں کی تعداد پہلے سے بھی زیادہ ہے، ان مدارس کی برکت سے مؤناتھ بھنجن ماضی قریب میں جماعت کے نامور مدرسین کامرکز رہا ہے اورجس زمانہ میں اس سرزمین پرمولاناعبداللہ شائق مؤی، مولاناشمس الحق سلفی، مولانا عبدالمعید بنارسی اورمولانا مصلح الدین اعظمی رحمہم اللہ جیسے اساطین فن اپنے علمی فیوض کی سوغات لٹارہے تھے واقعی یہ قصبہ’’ بغداد ہند‘‘ کہلانے کا مستحق تھا، مؤناتھ بھنجن اوریہاں کے مسلمانوں کی اپنی ایک علیحدہ شناخت رہی ہے وہ اپنی تہذیب وثقافت ،بول چال، وضع قطع اور رکھ رکھاؤ میں ایک خاص پہچان بنائے ہوئے تھے، لنگی ،کرتا اورخاص قسم کی ٹوپی ان کی پوشاک تھی اوراپنے اس خاص لباس کے سبب یہ ہرجگہ پہچان لئے جاتے تھے، ان جملہ خصوصیات کے ساتھ مؤناتھ بھنجن مردم خیز بھی رہا ہے اوراس کی خاک سے بڑے بڑے علماء فضلاء، محدثین ومفسرین،محققین ومصنفین، ادباء وشعراء نے جنم لیاہے اورعلم کی خدمت میں ان کے نام سرفہرست لکھے جاتے ہیں۔
گوناں گوں امتیازات کے حامل اس مردم خیز شہرمیں ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ نے ایک سیدھے سادے موحد خاندان میں آنکھیں کھولیں، آپ کے والد الحاج محمدیٰسین رحمہ اللہ کوئی عالم فاضل شخص تونہ تھے مگردین پسندی اورعلماء نوازی کی خوبی ان کے اندر ضرورتھی،مجھے یاد پڑتاہے کہ مولانا مختاراحمد ندوی رحمہ اللہ سابق امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے ایک موقعہ پر ’’البلاغ‘‘ کے خصوصی کالم ’ ’مشاہدات‘‘ میں مؤ اور اہالیان مؤکاتذکرہ کرتے ہوئے ایک جلسہ کا بھی ذکرکیا تھا جس میں شیرپنجاب فاتح قادیان علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تشریف آوری ہورہی تھی، اسٹیشن سے قیام گاہ تک مولانا کو لانے کے لئے اس زمانہ میں کسی معقول سواری کا انتظام نہ تھا تو ایک بگھی تلاش کی گئی اورمولانامختاراحمد ندوی کے والد اورڈاکٹر ازہری کے والد (رحمہم اللہ) نے گھوڑے کے بجائے خوداسے کھینچ کراسٹیشن پہونچایا اوراس پرسوار کرکے مولاناکو قیام گاہ تک لائے۔
ڈاکٹرصاحب کے دادیہال میں توکوئی عالم دین نہ تھے تاہم آپ کے نانا مولانا محمدنعمان رحمہ اللہ شیخ الکل فی الکل میاں سیدنذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے آخری دورکے تلامذہ میں سے تھے نیزاردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے شاگردتھے اورجنوبی ہندکے عمرآبادکو جنھوں نے اپنی دعوت وتعلیم کا مرکز بنایا تھا، والدہ بھی کسی حد تک تعلیم یافتہ ،وسیع المطالعہ اور دوراندیش خاتون تھیں، انھیں بزرگوں کے زیرسایہ ازہری رحمہ اللہ کی نشوونما ہوئی۔
تعلیم:۔ازہری صاحب کی تعلیم کا آغاز ان کے محلہ میں واقع جماعت کے قدیم ترین ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ سے ہوا، اورحفظ قرآن کی تکمیل ۱۹۵۲ء میں مرزاہادی پورہ مؤمیں واقع معروف دیوبندی تعلیمی ادارہ دارالعلوم مؤکی شاخ سے کیا، اورعربی کی ابتدائی جماعتوں کی تعلیم مدرسہ عالیہ عربیہ میں حاصل کی، اس دورمیں فیض عام بڑے بڑے مشائخ اورنامور مدرسین کا مرکز تھا، آپ نے فیض عام کا رخ کیا اوروہاں کے اساتذہ سے کسب فیض کیا مگرتکمیل ۱۹۶۲ء میں مولانا عبداللہ شائق مؤی کے زیر تربیت جامعہ اثریہ دارالحدیث سے کیا جسے مولاناشائق نے فیض عام سے علیحدہ ہونے کے بعد قائم کیا تھا، اسی دوران موصوف نے عربی فارسی بورڈ الہ آباد سے مولوی، عالم اور فاضل وغیرہ کے امتحانات بھی اچھے نمبرات سے پاس کئے۔
جامعہ ازہرمصرکا رخ:۔ ازہری صاحب نے فراغت کے بعدکچھ دنوں تک مؤمیں تدریسی خدمت انجام دی، اور۱۹۶۳ء میں آپ نے جامعہ ازہرمصر کا رخ کیا، ان دنوں سعودی عرب اوردیگر خلیجی عرب ممالک میں اس انداز کے جامعات نہ تھے جیسے اب ہیں، اس لئے ہندوستان کے ذہین اورباذوق طلبہ مزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے اپنے خاص اخراجات پر جامعہ ازہر مصرجاتے تھے، بہرحال ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کو مصر جانے میں کامیابی ملی، جامعہ ازہر کے کلیہ اصول الدین میں آپ کا داخلہ ہوا اوروہاں رہ کرآپ نے ایم. اے.کی سند حاصل کی، دوبرس تک آپ نے قاہرہ ریڈیوکے شعبۂ اردومیں اناؤنسر اورمترجم کے فرائض بھی انجام دئے، آپ ازہر ہی سے ڈاکٹریٹ کا کورس بھی مکمل کرناچاہتے تھے مگربعض اسباب کی وجہ سے آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور۱۹۶۷ء میں آپ ہندوستان واپس تشریف لے آئے، اورجامعہ سلفیہ بنارس جوابھی نیانیا قائم ہواتھا اس سے وابستہ ہو کر علمی، دعوتی اورتدریسی خدمات کی انجام دہی میں لگ گئے۔
ڈاکٹریٹ کی ڈگری:۔ جامعہ سلفیہ بنارس میں اپنی دعوتی، صحافتی اورتصنیفی خدمات انجام دینے کے دوران ۱۹۷۲ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے شعبہ عربی میں ایم.فل. میں داخلہ لیا اوراس کی تکمیل کے بعد ۱۹۷۵ء میں ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی، ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے آپ نے ابن عبدالبر قرطبی کی ’’أحادیث بہجۃ المجالس‘‘ جلدثانی کی تخریج وتحقیق کی اور۷۰۰ صفحات پرمشتمل اس مقالہ میں کتاب کی تحقیق وتخریج کے ساتھ کتاب کی دونوں جلدوں کی فہرست سازی کی۔
ممتازاساتذہ:۔ ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ نے اپنے تعلیمی مراحل میں جن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا ان میں چندممتاز اورنامور اساطین علم وفن کے اسماء یہ ہیں :مولانا عبدالعلی صاحب،مولانا عبدالمعید بنارسی، مولانا عبدالرحمن صاحب، مولانامفتی حبیب الرحمن فیضی، مولانا عبداللہ شائق ،مولانا شمس الحق سلفی، مولانا عظیم الدین مؤی، ڈاکٹرعلی عبدالواحد وافی، ڈاکٹر شوقی ضیف وغیرہم۔
عملی زندگی اورہمہ جہت خدمات:۔ ۱۹۶۷ء میں ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ جب مصرسے ہندوستان واپس آئے توجامعہ سلفیہ بنارس میں تعلیمی افتتاح کا یہ دوسرا سال تھا، جامعہ سلفیہ بنارس کے بالغ نظرناظم مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ کی مردم شناس نگاہ نے ڈاکٹر ازہری کی خفیہ صلاحیتوں کو تاڑلیا اوراس گلشن رسول کی آبیاری کے لئے آپ کو منتخب کرلیا اورآپ کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، ڈاکٹر